نیپال بارڈر کے قریب مسلمانوں کے ناگفتہ بہ حالات
محمد قمرالزماں رضوی احسنی
رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی مدارسِ اسلامیہ میں تعطیل کلاں کا اعلان کر دیا جاتا ہے اور دو ماہ کے لئے درس و تدریس کا سلسلہ موقوف ہو جاتا ہے۔ تمام طالبان علوم نبویہ اپنے گھروں کو روانہ ہو جاتے ہیں۔ میں بھی ایک ادنیٰ طالب علم ہوں اور جامعہ احسن البرکات (مارہرہ مطہرہ) میں زیر تعلیم ہوں۔ ہمارے جامعہ کے ایک فاضل مفتی عابد رضا برکاتی احسنی (ساکن کھجوریہ، ضلع لکھیم پور کھیری) نہایت خوش اخلاق، ملنسار۔اور قوم و ملت کا درد رکھنے والے عالمِ دین ہیں۔ الله تعالیٰ نے انہیں دین کی خدمت کا جذبہ عطا فرمایا ہے۔ موصوف اپنے علاقے سمپورنا نگر کی رضا جامع مسجد میں امامت کے فرائض انجام دے رہے ہیں اور مختلف دینی منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں کامیابی عطا فرمائے۔ گزشتہ چند سالوں سے، نیپال بارڈر کے قریبی علاقوں میں رمضان المبارک کے موقع پر، ہمیں دینی خدمات انجام دینے کا موقع ملا۔ یہاں کئی ایسی بستیاں ہیں جہاں مساجد موجود نہیں اور جہاں ہیں، وہاں اذان کی آواز سننے کے لیے لوگ ترستے ہیں۔ غیر مسلموں کے ساتھ رہتے رہتے، ان کے رسم و رواج، تہوار اور طریقے مسلمانوں کی زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بعض مسلمان نہیں جانتے کہ وہ مسلمان ہیں! مفتی عابد رضا برکاتی صاحب کی کاوشوں سے، پچھلے دو سالوں میں، ان علاقوں میں نمازِ تراویح کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ کئی مقامات پر لوگ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ تراویح کیا ہوتی ہے؟ روزہ، نماز، اور کلمہ طیبہ کی اہمیت سے بے خبر تھے۔ گزشتہ سال، رمضان المبارک میں ایک ایسے گاؤں میں تراویح کا آغاز کیا گیا جہاں پچاس سال سے اذان نہیں دی گئی تھی! جب ہمیں یہ معلوم ہوا تو دل خون کے آنسو رونے لگا۔ میرے رفیقِ درس مولانا قاری قمر رضا قادری نے وہاں جا کر پہلی اذان دی اور باجماعت نماز تراویح کا آغاز کیا۔ اس مہم کے تحت، نہ صرف نماز و عبادات کا آغاز کیا گیا بلکہ مقامی مسلمانوں کو توحید، عقائد، وضو، غسل، اور بنیادی اسلامی تعلیمات سکھائی گئیں۔ بچوں کو کلمے یاد کرائے گئے اور اسلامی تعلیمات سے روشناس کرایا گیا۔ اس کام میں بے حد محنت، صبر، اور قربانی درکار تھی، لیکن اللہ کے فضل سے لوگوں میں دینی شعور بیدار ہونے لگا۔ اس سال بھی کئی مقامات پر تراویح، اذان اور اسلامی تعلیمات کا سلسلہ جاری ہے۔ بھٹکتے نوجوانوں کو دینِ اسلام کی روشنی دکھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایک گاؤں میں، مجھے رمضان کی پہلی رات تراویح پڑھانے بھیجا گیا۔ نمازِ عشاء کی تکبیر کے بعد میں نے فرض ادا کیے اور سنتوں کے لیے کھڑا ہوا، تو میں نے محسوس کیا کہ مقتدی بھی میرے ساتھ رکوع و سجود کر رہے ہیں! جب میں نے سلام پھیرا تو سب نے سلام پھیرا۔ میں نے ان سے پوچھا: "آپ لوگ شاید سمجھ رہے تھے کہ تراویح شروع ہو چکی ہے؟" سب نے یک زبان ہو کر کہا: "ہاں! کافی دنوں بعد نماز پڑھ رہے ہیں، اس لیے بھول گئے ہیں!" یہ سن کر دل لرز اٹھا کہ دین کی بنیادی عبادات تک ان لوگوں کے ذہن سے محو ہو چکی ہیں! پھر میں نے انہیں تفصیل سے سمجھایا کہ عشاء کے فرض کے بعد سنتیں اور نوافل ہوتے ہیں، اس کے بعد تراویح ادا کی جاتی ہے۔ اس پرفتن دور میں ہمارے مخلص ساتھی مسلمانوں کے ایمان کو تازہ کرنے عشقِ مصطفیٰ ﷺ پیدا کرنے اور دینی ماحول بیدار کرنے میں بھرپور محنت کر رہے ہیں۔ ان کوششوں کا مقصد یہ ہے کہ ان سادہ لوح مسلمانوں کو دوجہان کی سعادتیں، رحمتیں، برکتیں، اور بھلائیاں نصیب ہوں۔ یوں تو جینے کو دنیا میں جیتے ہیں سب ســـب کو دیتــا نہیں ہے یہ تـوفیـق رب زنــدگی ہے حقـیقــت میــں وہ زنـــدگی وقــف ہوجـــــائے جـو بنــدگــی کے لیـے ( فاروق مدناپوری) میں بالخصوص مبلغِ اسلام حضرت غلام غوث صاحب عرف نہال بھائی کا شکر گزار ہوں جنہوں نے اس کارِ خیر میں بھرپور ساتھ دیا اور دے رہے ہیں۔ الله تعالیٰ ہمیں بھی دین کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ جامعہ احسن البرکات، مارہرہ مطہر