از قلم:- محمد کلام الدین نعمانی مصباحی امجدی
ہر مسلمان مرد و عورت پر علم حاصل کرنا فرض ہے، ہر فرد کے لئے یکساں طور پر تعلیم حاصل کرنے کی سہولت کو یقینی بنایا جانا چاہیے، مسلمان ابھی تعلیمی میدان میں بہت پیچھے ہیں، بہت سے لوگ پرائمری سطح پر ہی تعلیم چھوڑ دیتے ہیں، جس کا نتیجہ معاشرے میں جہالت کی کثرت اور دیگر خرابی و برائی کی شکل میں نظر آتا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ دیگر مسائل بھی تعلیمی مسائل ہی کے بطن سے پیدا ہوتے ہیں۔ کیوں کہ علم انسان کے مسائل کو حل کرتا ہے، اسے ہلاکت و نقصان سے بچاتا ہے، اس کے اندر شعور و آگہی پیدا کرتا ہے، پس جو قوم علم ہی سے دور بھاگ جائے اس کے مسائل کو کوئی حل نہیں کر سکتا، جب کہ جہاں مسائل ہوتے ہیں، وہیں امکانات بھی پوشیدہ ہوتے ہیں، لیکن انسان کی نظر مسائل پر تو پہنچ جاتی ہے، امکانات تک نہیں پہنچ پاتی۔ تعلیم کے حصول سے قبل خلیجی ممالک کا سفر مفید یا مضر؟ نیپالی مسلمانوں کے لیے عصر حاضر کا یہ اہم چیلنج ہے کہ ہم اپنے مستقبل کو خود اپنے ہی ہاتھوں دفن کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ شعور کی آنکھیں کھولنے سے قبل ہی مسلمان والدین اپنے بچوں کے تعلق سے طرح طرح کے خواب دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ اور ۱۸ سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے ان کا پاسپورٹ تیار ہو چکا ہوتا ہے، چند سکوں کی لالچ میں غریب بچوں کے والدین، بچوں کی تعلیمی خودکشی پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک عمومی جائزہ ہے کہ دیہاتوں میں رہ رہے لوگوں کے بچے بڑی تعداد میں پرائمری سطح کی تعلیم یا ہائی اسکول سے پہلے ہی تعلیم چھوڑ دیتے ہیں اور خلیجی ممالک کا سفر کرتے ہیں۔ مسلمانوں کے اس عمومی رویہ کے نتیجے میں ناخواندگی کی شرح کافی بڑھ چکی ہے ، ان کی نظر میں تعلیم کی کوئی اہمیت باقی نہ رہی، وہ دولت اور پیسہ ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں۔ یہ بات زیادہ تر ان گھرانوں میں زیادہ عام ہے جہاں گھر کے تمام افراد یا اکثر جاہل ہیں، ان کا کام پیسہ کمانا، زمین خریدنا اور مکان تعمیر کرنا ہے اور بس، مسلمان اپنی کمائی کا 10/فی صد بھی بچوں کی تعلیم پر خرچ نہیں کرتا۔ فی زماننا تعلیم پر صرف ان گھرانوں میں زور دیا جاتا ہے جو پہلے سے تعلیم یافتہ ہیں۔ ان نو خیز نوجوانوں کے خون پسینے کی گاڑھی کمائی کا مصرف، اینٹ، بالو، پتھر، سمینٹ ، اور مٹی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ اس سے ان کا مادی دیولپمنٹ تو ہو جاتا ہے لیکن ذہنی ارتقا کا عمل رک جاتا ہے۔ سوچ محدود ہو جاتی ہے اور اسی جہالت مآب معاشرہ کے بطن سے فکری، مادی ، اور سماجی بے راہ روی کے دروازے کھلنے لگتے ہیں، زندگی کے صحیح مقصد سے نا آشنائی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ وطن سے دور ہونے کی وجہ سے بچوں کی صحیح تربیت نہیں ہو پاتی ہے، معاشرتی بے حیائی کو فروغ ملتا ہے۔
آج ہم جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ معاشرے میں اکثر برائیوں کی وجہ حصول علم سے قبل پردیس جانا ہے، اس سے وطن عزیز میں دولت تو بڑھ جاتی ہے، لیکن نسلیں برباد ہو جاتی ہیں، اور بغیر تعلیم کے خلیجی ممالک کا سفر کرنے پر وہاں تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے ایک معمولی مزدوری بھی وقت پہ نہیں مل پاتی ہے، جس کے باعث خود بھی پریشان گھر والے بھی متفکر۔ اسی طرح مسلمانوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا رجحان نہ کہ برابر ہے، کسی گاؤں میں مشکل سے مسلمان گریجویٹ مل سکے گا، زیادہ تر لوگ ہائی اسکول سے پہلے ہی تعلیم چھوڑ بیٹھتے ہیں۔ اور جب وہ تعلیم حاصل نہیں کرتے تو گور نمنٹی ملازمتوں میں ان کے داخلہ کا امکان بھی ختم ہو جاتا ہے، اس طرح مسلمان بہت سے اہم مناصب پر فائز نہیں ہو پاتے۔ اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ مکاتب و مدارس کی تعلیم کو منظم بنایا جائے ، ان کو عصری و مذہبی تعلیم کا سنگم بنایا جائے، وہ مضامین جو نیپالی مسلمانوں کے لیے لازمی حیثیت رکھتے ہیں مثلاً اردو، عربی، انگریزی، نیپالی، حساب ، سائنس اور سماجیات و ماحولیات ان کی تدریس مکاتب میں باضابطہ ہو۔ ہر مکتب و مدرسہ میں اسلامیات کے اساتذہ کے ساتھ عصری علوم کے اساتذہ کی بھی تقرری کی جائے، کلاسیں با ضابطہ ہوں، درجات کا تعین ہو، امتحان کا نظم قائم ہو، پھر اس کی بنیاد پر ترقی کی سرٹیفکیٹ جاری کی جائے، چار پانچ سالوں تک محض اردو د، ناظرہ خوانی تک طلبہ کو محدود کر دینے کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ وہ پھر اسکول کا اہل نہیں رہ جاتا، اور اسکولوں میں محض عصری تعلیم کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ طلبہ و طالبات دین سے مکمل طور پر کٹ کر رہ جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں ارباب حل و عقد پر یہ واجب ہو جاتا ہے کہ ایک ہی اسکول یا مدرسہ میں دونوں طرح کی تعلیم کا نظم قائم کریں۔ افسوس کے اس طرح کے اسکول یا مدارس و مکاتب ہمارے پاس نہ کے برابر ہیں، اگر ہیں بھی تو ان کو انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے۔ اصحاب ثروت اگر اس جانب محض تجارتی نقطہ نظر سے بھی متوجہ ہو جائیں تو انہیں اس میں خاطر خواہ کامیابی مل سکتی ہے۔ بالخصوص علما و دانشوران سے التماس ہے کہ ان سسکتی حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اس طرف اپنی توجہ مبذول کریں اور مدارس و مکاتب کے نظام کو بہتر سے بہتر بنائیں تاکہ ہماری نسلیں تعلیم یافتہ ہوں، اور انہیں در بدر بھٹکنے کے بجائے ملک عزیز ہی میں اچھی تعلیم مل سکے۔ بنوٹا،بلوا نگر پالیکا، ضلع: مہوتری، مدھیس پردیس، نیپال